المشاركات

عرض الرسائل ذات التصنيف اردو مقالے

اے دنیا کے مسافر

صورة
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: "دنیا جا رہی ہے اور آخرت آ رہی ہے. کچھ لوگوں کو دنیا کی چاہت ہے اور کچھ لوگوں کو آخرت کی. دیکھو ان میں رہو جو آخرت کی چاہت رکھتے ہیں اور ان میں مت رہو جو دنیا کی چاہت رکھتے ہیں. بات یہ ہے کہ آج عمل ہی عمل ہے، حساب نہیں. اور کل حساب ہی حساب ہے، عمل کی کوئی گنجائش نہیں. لیکن آج ہمارا مسلم معاشرہ اس کے بر عکس اس قفص عنصری میں اس طرح زندگی گزار رہا ہے گویا اس کو کبھی اس سے جدا ہی نہ ہونا ہو. اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نافرمانی عام ہو چکی ہے. دنیا کی محبت لوگوں کے دلوں میں رچ بس گئی ہے. لوگ ناچ گانوں کے، فلموں کے اور دیگر لایعنی چیزوں کے دلدادہ ہو گئے ہیں. اور بھی بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو شریعت اسلامیہ کے دائرہ مخصوصہ سے خارج ہیں، لیکن ان کے اندر جاگزیں ہو چکیں ہیں.  فیشن پرستی ان کے اندر اس حد تک سرایت کر چکی ہے کہ وہ سنت نبوی کو فراموش کر کے فلمی ہیرو ہیروئن کو، کرکیٹروں کو اور ماڈلوں کو اپنا نمونہ بنائے ہوئے ہیں. نماز وروزہ کی فکر ان کے دلوں سے جاتی رہی ہے. مال کا ذخیرہ کرنا ان کی زندگی کا اہم ترین مقصد بن چکا ہ...

باہمی عداوت اور قطع تعلق

صورة
آج کے اس پر آشوب ماحول میں جبکہ یہود ونصاری اور دیگر قومیں باہم متحد ہو کر ہمہ وقت اسلام اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے فراق میں ہیں، مسلمانوں کے اندر باہمی عداوت کسی قیامت سے کم نہیں. یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں وبیاں ہے کہ ہر انسان کے اخلاق وعادات، طور وطریقہ عقل وفہم اور فکر وسوچ مختلف ہیں، اس لیے زندگی کے مختلف امور میں باہمی اختلافات کا پایا جانا ایک بدیہی امر ہے. لیکن ان اختلافات کی بنا پر باہم دست گریباں ہونا اور قطع رحمی کر لینا عقل سے ماورا ہے.  بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ کسی شخص کی جانب سے کوئی زیادتی ہو جاتی ہے، جو دوسرے کے لیے رنج وغم کا سبب بن جاتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ اس سے تعلقات منقطع کر لیتا ہے. حالانکہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ "کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زائد جدا رہے اور ملاقات کے وقت ایک دوسرے سے منھ پھیر لے اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں ابتدا کرے." (بخاری) اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو آپس کے تعلقات...

والدین خدا کا انمول تحفہ

صورة
یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں وبیاں ہے کہ اللہ رب العزت کی اپنے بندوں پر بے شمار نعمتیں ہیں جن کا احاطہ کرنا انسان کی استطاعت سے باہر ہے. "وإن تعدوا نعمة الله لا تحصوها." انہیں نعمتوں میں ایک عظیم نعمت والدین ہیں. والدین ہمارے لیے قدرت کا ایک انمول تحفہ ہیں جن کا بدل اس روئے زمین پر ملنا ممکن نہیں. والدین کی عظمت کا اندازہ قرآن کریم کی ان آیات سے ہوتا ہے جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی ذات مقدس کے بعد والدین کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "واعبدوا الله ولا تشركوا به شيئاً وبالوالدين إحساناً." دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "أن اشكر لي ولوالديك." ایک اور جگہ ارشاد ہے: "وقضى ربك ألا تعبدوا إلا إياه، وبالوالدين إحساناً." آج کے اس پر آشوب اور تیرہ وتار ماحول میں حقیقی معنوں میں اگر کسی کے دل میں کسی کے لیے اخلاص ومحبت ہے تو والدین کے دل میں اپنی اولاد کے لیے ہے. والدین اولاد کے لیے شفقت ومحبت کا سرچشمہ ہیں. وہ والدین ہی ہیں جو اولاد کی پرورش وپرداخت کے لیے اور ان کی تعلیم وتربيت کے لیے ہر قسم کی قربانیاں برداشت کرتے ہیں. ان کے آرام وراحت کے ل...