والدین خدا کا انمول تحفہ

یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں وبیاں ہے کہ اللہ رب العزت کی اپنے بندوں پر بے شمار نعمتیں ہیں جن کا احاطہ کرنا انسان کی استطاعت سے باہر ہے. "وإن تعدوا نعمة الله لا تحصوها." انہیں نعمتوں میں ایک عظیم نعمت والدین ہیں. والدین ہمارے لیے قدرت کا ایک انمول تحفہ ہیں جن کا بدل اس روئے زمین پر ملنا ممکن نہیں. والدین کی عظمت کا اندازہ قرآن کریم کی ان آیات سے ہوتا ہے جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی ذات مقدس کے بعد والدین کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "واعبدوا الله ولا تشركوا به شيئاً وبالوالدين إحساناً." دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "أن اشكر لي ولوالديك." ایک اور جگہ ارشاد ہے: "وقضى ربك ألا تعبدوا إلا إياه، وبالوالدين إحساناً."
آج کے اس پر آشوب اور تیرہ وتار ماحول میں حقیقی معنوں میں اگر کسی کے دل میں کسی کے لیے اخلاص ومحبت ہے تو والدین کے دل میں اپنی اولاد کے لیے ہے. والدین اولاد کے لیے شفقت ومحبت کا سرچشمہ ہیں. وہ والدین ہی ہیں جو اولاد کی پرورش وپرداخت کے لیے اور ان کی تعلیم وتربيت کے لیے ہر قسم کی قربانیاں برداشت کرتے ہیں. ان کے آرام وراحت کے لیے اپنے چین وسکون کو تج دیتے ہیں. قرآن کریم میں اللہ تبارک تعالیٰ کا فرمان ہے: "اور تمہارے پروردگار نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو. اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو "اف" تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا، اور ان سے ادب سے بات کرنا، اور عجز ونیاز سے ان کے آگے جھکے رہنا، اور ان کے حق میں دعا کرنا: "اے پروردگار! جیسا انہوں نے بچپن میں (شفقت سے) میری پرورش کی ہے، تو بھی ان کے حال پر رحم فرما." حدیث میں آتا ہے کہ والدین کے نافرمان کو جنت میں داخل نہ کرنے کی اللہ تبارک وتعالیٰ نے ذمہ داری لی ہے. (حاکم)
لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے ارشادات کو اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کو پس پشت ڈال دیا. بچپن میں جب ہمارے اندر الفاظ کو ادا کرنے اور ان کو سمجھنے کی صلاحیت نہ تھی تو انہوں نے ہماری ضروریات کو اشاروں میں سمجھا اور پورا کیا، لیکن آج ہم ان خواہشات کی قدر نہیں کرتے. ان کو کسی نہ کسی بہانے رد کر دیتے ہیں. بچپن میں جس ماں نے ہمیں جگر کے ٹکڑے کی طرح پالا، ہمیں اپنے سینے سے لگایا، ہمیں اپنی آغوش میں رکھا، ہماری چھوٹی سے چھوٹی چیزوں کا خیال رکھا اور ہمارے لیے رات کی نیند اور دن کا چین وسکون قربان کیا، آج اسی ماں کی ہم بات بات پر دل آزاری کرتے ہیں. ان کے لیے غیر اخلاقی اور نازیبا کلمات استعمال کرتے ہیں اور سے بد اخلاقی سے پیش آتے ہیں. قربان جائیے ان والدین پر جو ان تمام تکلیفوں کے باوجود اپنی زبان سے بد دعا کا ایک لفظ نہیں نکالتے ہیں؛ کیوں کہ والدین کی ایک دعا ہمارے لیے دنیا وآخرت میں ناکامی کا سبب بن سکتی ہے. حدیث شریف میں ایک طرف جہاں جنت کو ماں کے قدموں تلے بتایا گیا ہے، تو دوسری طرف باپ کو جنت کا دروازہ کہا گیا ہے.
اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کی اطاعت وفرمانبرداری کرنے اور ان کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی نافرمانیوں اور دل آزریوں سے ہر طرح سے محفوظ رکھے. (آمین)

ماذا أريد أن أصبح في مستقبل أيامي
باہمی عداوت اور قطع تعلق

تعليقات

المشاركات الشائعة من هذه المدونة

حیاتِ متنبی اور اُس کی شاعری

مساهمة توفيق الحكيم في تطوير المسرحية

أبيات بشار بن برد في الشورى والجد والمعاشرة