متنبی اور اس کی شاعری
پیدائش:
ابو طیب احمد بن حسین متنبی سنہ 303 ھ میں کوفہ کے ایک متوسط اور نادار گھرانے میں پیدا ہوا. بچپن ہی سے حافظہ بے پناہ تھا. جو سنتا تھا وہ پھر حَجْلَہ دماغ سے نہ نکلتا تھا اور پتھر کی لکیر بن جاتا تھا.
حسب ونسب:
متنبی کے حسب ونسب کے بارے میں بڑا اختلاف ہے. لیکن اِس سلسلے میں اصل اور درست بات یہ ہے کہ وہ علوی تھا. اُس کی مجد وشرف، اُس کا حوصلہ، اُس کی صلاحیت، اُس کی جرات مندی اور دلیری سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ علوی خاندان کا ہی ایک فرد تھا.
پرورش:
متنبی ایک غریب اور مفلس گھرانے میں پیدا ہوا اور ستم بالائے ستم یہ کہ اُس کی والدہ کا انتقال بھی اِسی کمسنی کے عالم میں ہو گیا. مگر اُس کی نانی نے اُس کی اِس طرح پرورش کی جس طرح ایک ماں اپنے بیٹے کو لاڈ پیار سے پالتی ہے. یہی وجہ ہے کہ متنبی نے اپنے دیوان میں جا بجا اپنی نانی اور اُس کے خاندان پر فخر کیا ہے اور نانی کی وفات پر ایک دلسوز مرثیہ لکھا ہے. متنبی کی نشو ونما شام میں ہوئی.
علم وفضل:
متنبی پیدائشی ذہین تھا ہی، مزید برآں مسلسل تَگ ودَو اور جد وجہد کے باوجود پیشانی پر تکان کے آثار نمودار نہیں ہوتے تھے. اُس کی ذہانت کا اعتراف علامہ ذہبی، علامہ ابن حجر اور ابن خلکان جیسے اہم مؤرخین نے کیا ہے.
متنبی کی حیثیت ایک حرفِ معتبر کی طرح ہے جسے آج تک کوئی غلط نہیں ثابت کر سکا ہے. یہ اُس کے کمالِ فن کا نتیجہ ہے کہ بڑے بڑے اربابِ علم وفضل نے اُس کی بالغ نظری اور عبقریت کو تسلیم کیا ہے. بعض لوگوں نے تو صاف صاف لکھ دیا ہے کہ دنیا میں آج تک اُس سے بڑا تو کیا اُس جیسا شاعر پیدا ہی نہیں ہوا اور اگر ہوئے بھی ہیں تو بہت کم.
علامہ ابن حجر بھی اُس کی آفاقیت کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں کہ "علم وفن میں متنبی نے وہ کمال حاصل کیا کہ وہ اپنے زمانے کا سَرخَیل ہو گیا اور عربی زبان وادب میں اُس کی سیادت مسلم ہو گئی".
متنبی اور دعویٰ نبوت:
متنبی کی زندگی کے اِس نمایاں پہلو پر عربی اور اردو دونوں زبانوں میں بہت کچھ لکھا گیا ہے. مؤرخین اور مصنفین میں اکثر کسی صحیح نتیجہ پر پہنچے بغیر ہی اقوال نقل کر کے آگے بڑھ گئے ہیں، البتہ اہم مؤرخین نے اِس سے متعلق کوئی اہم رائے نہیں قائم کی ہے.
جن لوگوں نے اِس دعویٰ نبوت کے بارے میں نرم کلامی سے کام لیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ متنبی پر دعویٰ نبوت کا الزام بے بنیاد اور بہتان تراشی کے علاوہ کچھ نہیں، ایسے لوگوں میں ثعالبی اور احمد سعید بغدادی قابلِ ذکر ہیں. ثعالبی نے لکھا ہے کہ "متنبی دعویٰ نبوت کے سبب نہیں بلکہ حاکمِ وقت سے بغاوت کے سبب جیل میں ڈالا گیا تھا". احمد سعيد بغدادی نے بھی ثعالبی کے اِسی نظریے کو افضل ترین قرار دیا ہے.
خود متنبی کے دیوان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اُس نے نبوت کا دعوٰی نہیں کیا تھا، البتہ اُس کے دل میں اِس قسم کا خیال ضرور پیدا ہوا تھا.
دورِ جدید کے اکثر ماہرینِ ادب، علماء اور مؤرخین نے اِس کا اعتراف کیا ہے کہ متنبی پر دعویٰ نبوت کا الزام افتراء پردازی اور بہتان تراشی کا اعلیٰ نمونہ ہے. ایسے لوگوں میں استاد محمود شاکر اور ڈاکٹر طہ حسین قابلِ ذکر ہیں.
جن مؤرخین کی کتابوں میں متنبی کے دعویٰ نبوت سے متعلق کہیں اشارةً اور کہیں صراحةً ثبوت ملتا ہے، اُن میں اہم خطیب بغدادی اور ابن خلکان ہیں.
اگر اِن حضرات کی روایتوں کو صحیح مانا جائے جب تو کوئی بات نہیں، لیکن وہ روایتیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اُس نے نبوت کا دعوٰی نہیں کیا تھا، اگر اُن کو صحیح مان لیا جائے تو پھر اعتراض یہ پیدا ہوگا کہ وہ آخر اِس لقب سے مشہور کیوں ہوا؟ تو اِس سلسلے میں درست بات یہ ہے کہ متنبی کو متنبی کے لقب سے مشہور کرنے میں اُس کے دشمنوں کا زیادہ ہاتھ ہے. کیونکہ متنبی نے چند اشعار ایسے کہے تھے جن میں اُس نے اپنی سادگی کو حضرت صالح اور حضرت عیسی علیہما السلام کے مشابہ قرار دیا تھا. چنانچہ اِن لوگوں نے موقع کو غنیمت سمجھا اور طنزاً اُسے متنبی کہہ کر پکارنے لگے.
متنبی کا اسلوبِ بیان:
متنبی کے فن اور اُس کے اسلوب سے متعلق گفتگو جُوئے شِیر لانے سے کم نہیں. اُس نے بعض مقام پر اپنی شاعری میں حسن وعشق کا مرقع پیش کیا ہے اور بعض مقام پر مُضحِکہ خیز باتیں کی ہیں. متنبی شروع میں ابو تمام کے اندازِ بیان پر سب کچھ اعتماد کرتا تھا. شاید اِسی اعتماد کا نتیجہ ہے جس کے سبب متنبی کے ابتدائی کلام پر نقد وتبصرہ ہوا. اور بہت سی خامیاں ایسی ہیں جن کا تعلق شاعر کی صرف ابتدائی زندگی سے وابستہ نہیں، بلکہ اُن کا تعلق شاعر کی زندگی کے آخری لمحہ تک رہا جیسے طنز ومزاح کے ذوقِ لطیف کا فُقدان اور موقع ومحل سے عدمِ واقفیت.
اپنے وقت کے دیگر شعراء کی طرح متنبی نے بھی سلاطینِ وقت کی اندھا دھند تعریف کی اور مبالغہ آمیز باتیں کیں اور اِس کو اُس نے اپنی شاعری کا جُزءِ لا یَنْفَکْ قرار دیا. البتہ جہاں تک اُس کے فخر ومُبہاہات کی شاعری کا تعلق ہے وہ اپنی فطرت کے خلوص، مضمون کی وضاحت، عبارت کے ٹھہراؤ، دھیمے لب ولہجے اور اسلوبِ بیان کی سلاست روی میں اپنی مثال آپ ہے.
مختصر لفظوں میں یوں سمجھنا چاہیے کہ جہاں اُس نے اپنے ذوق اور مزاج کے اعتبار سے شاعری کی، سراہی گئی. اور جہاں اِس کے برخلاف کیا، ٹھوکر کھانی پڑی.
متنبی یقیناً ایک صاحبِ طرز فنکار تھا. معنی آفرینی، سادگی وسلامت، صحت وقوت کی ٹیپ ٹاپ اور متانت استغناء کے وہ نہایت کامیاب شاعر رہا. مگر رنگ وروغن کی چمک دمک اور خوش اسلوبی کی دلکشی ورعنائی میں وہ اُس مقام پر نہیں پہنچ سکا جہاں اُسے پہنچنا چاہیے تھا.
عرب شعراء میں متنبی کا مقام ومرتبہ:
متنبی کی شاعری میں بعض ایسے امتیازات ہیں جو عرب کے دوسرے شعراء کے یہاں نہیں پائے جاتے ہیں:
1- اُس کی شاعری کا ایک اہم امتیاز نذرانہ عقیدت ہے جو اُس نے کسی بادشاہ یا امیر کی خدمت میں پیش کیا ہے.
2- دوسری بات یہ ہے کہ اُس نے جو کچھ کہا وہ بہت زیادہ متنوع الالوان اور مختلف الانواع تھا.
3- تیسری خاص بات یہ ہے کہ اُس نے جہاد پر جو اشعار کہے ہیں وہ اتنے پرجوش، ولولہ انگیز، بلند پایہ اور بڑی مقدار میں ہیں جو بجائے خود اُس کی شاعری کا مستقل باب بن گئے ہیں.
4- چوتھی امتیازی بات یہ ہے کہ سیف الدولہ کے دربار میں پہنچ کر متنبی نے اپنے کلام کو اوجِ کمال پر پہنچا دیا.
متنبی کے شعری محاسن:
متنبی کے شعری محاسن پر باضابطہ روشنی ڈالنے کے لیے ایک طویل مقالے کی ضرورت ہوگی. میں یہاں مختصراً اُن چند محاسن کو پیش کر رہا ہوں جو واقعی اہم ہیں:
1- حسن مطلع.
2- حسن مقطع.
3- گزیز. متنبی اِس فن میں اپنا ثانی نہیں رکھتا.
4- تشبیب نگاری. متنبی کو تشبیب نگاری میں یدِ طُولی حاصل تھا. وہ بدوی نازنین عورتوں کی تصویر کشی اور اُن کے سراپا کو بیان کرنے میں بڑی مہارت رکھتا تھا. شاید اِسی وجہ سے متنبی کو نسیب وتشبیب کا امام مانا جاتا ہے.
5- جدتِ ادا. ایک معنی کو مختلف پیرایہ میں بیان کرنے میں متنبی کو ملکہ حاصل تھا. دراصل اُس کا یہی کمال اُس کی شاعری کی جان ہے.
6- حسنِ ادا اور حسنِ تعرف.
7- تشبیہات واستعارات کی جدت. متنبی کے خصائصِ شاعری میں تشبیہات واستعارات کی جدت کو بڑی اہمیت حاصل ہے. اِس خوبی سے متعلق متنبی کا دیوان بھرا پڑا ہے.
8- سِیاقة الاَعداد. متنبی کے یہاں اِس صفت میں بھی اشعار کا کچھ حصہ مل جاتا ہے.
9- حسنِ تقسیم.
متنبی کے شعری معائب:
متنبی محاسن کا ایک وافر حصہ رکھنے کے ساتھ ہی معائب سے بھی بری نہ رہ سکا. یہ اور سی بات ہے کہ دراصل یہ وہ معائب ہیں جنہیں ادباء نے سمجھا ہے یا اُس پر زبردستی تھوپا گیا ہے:
1- قبحِ مطلع. متنبی کے دیوان میں کچھ ایسے مطالع ہیں جسے سننے کے بعد طبیعت کو عجیب کراہت محسوس ہوتی ہے.
2- قبحِ مقطع. متنبی کے قصائد کے بعض مقطع سننے کے بعد متنبی کی شخصیت مشتبہ نظر آنے لگتی ہے.
3- غرابتِ الفاظ. متنبی اپنے کلام میں عمدہ اور پُر شِکُوہ الفاظ استعمال کرتا ہے اور پھر اُس میں حسنِ بندش پیدا کرتا ہے. لیکن کبھی کبھی اپنی خود سری اور لاپرواہی سے ایسے الفاظ استعمال کر لیتا ہے جو مصرع تو درکنار، پورے اشعار کو داغدار بنا دیتے ہیں. متنبی کی یہ عادت انتہائی مذموم تھی.
4- تعقیدِ معنوی.
5- غلط الفاظ اور اعراب کا استعمال. متنبی کے اندر ایک زبردست عیب یہ بھی تھا کہ زورِ بیان میں ایسے الفاظ اور جملے استعمال کر جاتا تھا جو قواعد کے لحاظ سے غلط اور استعمال کے لحاظ سے غیر مناسب ہوا کرتے تھے.
6- الفاظ کا تکرار. بعض مرتبہ ایسا بھی ہوا ہے کہ متنبی نے ایک شعر میں ایک لفظ کو بار بار مختلف صیغوں کے قالَب میں ڈھال کر استعمال کیا ہے جسے سن کر کراہت محسوس ہونے لگتی ہے.
7- مبالغہ میں غلو. قصیدہ نگاری بغیر مبالغے کے بیکار ہے، لیکن مبالغہ اتنا ہی روا ہے جو حدِ امکان میں ہو. اِس سلسلے میں متنبی کے اشعار میں کہیں کہیں اِفراط وتفریط پائی جاتی ہے.
8- سوءِ ادبی. متنبی شائستگی اور سنجیدگی سے کبھی کبھی عاری ہو جاتا ہے. اُس کے بعض اشعار اخلاق سے گرے ہوئے اور شاہانہ آداب کے خلاف ہیں.
دیوانِ متنبی کے اہم شارحین:
جن اربابِ قلم نے دیوانِ متنبی کی شرحیں لکھی ہیں، اُن کی تعداد بہت زیادہ ہے. علامہ بدیعی اور ابن خلکان نے اِس کی اکتالیس شرحیں بتائی ہیں. تادم تحریر اِس کی کتنی شرحیں زیورِ طَبَع سے آراستہ ہو چکی ہیں، کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا. اختصار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میں چند شارحین کا نام پیش کر رہا ہوں:
1- ابن جنی.
2- الواحدی.
3- صاحب بن عباد.
4- العبکری.
متنبی کا حادثہ قتل اور اُس کے اسباب:
متنبی نے اکیاون سال کی عمر پائی اور سنہ 354ھ کے اواخرِ رمضان میں فاتک بن ابو جہل اسدی نے اِس عظیم شاعر کو دریائے دجلہ کے کنارے قتل کر دیا.
متنبی کے حادثہ قتل کے بارے میں لوگوں کے مختلف خیالات ونظریات ہیں، لیکن جو بات زیادہ مشہور اور قرینِ قیاس ہے وہ یہی ہے کہ اُس نے ضبہ کی ہجو میں ایک نہایت دل آزار قصیدہ لکھا تھا. قصیدہ کیا تھا، زہر میں بجھا ہوا نشتر تھا. اُس میں اُس نے ضبہ کو وہ مُغَلَّظات سنائی کہ شرافت کان بند کر لیتی ہے اور تہذیب ناک سکوڑ لیتی ہے. اُس نے ضبہ کی والدہ پر گندے اور گھناؤنے جملے کسے تھے، لہٰذا فاتک جو ضبہ کی ماں کا حقیقی بھائی تھا، اُس نے متنبی کو قتل کر دیا اور اُس کی لاش ایک ریتیلے میدان میں بے گُور وکفن پڑی رہ گئی.
خلاصہ:
خلاصہ کلام یہ ہے کہ متنبی عرب کے عظیم اور ممتاز شعراء میں سے ایک تھا. ایک ہزار سال سے زائد گزر جانے کے بعد بھی اُس کی شاعرانہ عظمت میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا. وُسعتِ نظر، رِفعتِ تخیل، نُدرتِ تشبیہ اور اظہارِ خیال کی جدت کے اعتبار سے اُس کا کلام آج بھی لاثانی ہے. شاید یہی وجہ ہے کہ دورِ جدید میں مشہور عربی نَقَّاد ڈاکٹر طہ حسین اُس کے پرستاروں میں ہیں اور دورِ قدیم میں ابو العلاء معری جیسے ناقدین اُس کے مَدَّاحوں میں ہیں.
مصادر ومراجع:
1- تاریخ ادب عربی اَزْ استاد احمد حسن زیات.
2- شرح دیوان متنبی اَزْ مفتی یار محمد خان قادری.
3- دیوان متنبی اَزْ محمد امین کھوکھر.
4- اردو شرح دیوان متنبی اَزْ مولانا اسیر ادروی.
5- دیوان ابی الطیب المتنبی.
تعليقات
إرسال تعليق
Please do not enter any spam links in the comment box.