باہمی عداوت اور قطع تعلق
آج کے اس پر آشوب ماحول میں جبکہ یہود ونصاری اور دیگر قومیں باہم متحد ہو کر ہمہ وقت اسلام اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے فراق میں ہیں، مسلمانوں کے اندر باہمی عداوت کسی قیامت سے کم نہیں.
یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں وبیاں ہے کہ ہر انسان کے اخلاق وعادات، طور وطریقہ عقل وفہم اور فکر وسوچ مختلف ہیں، اس لیے زندگی کے مختلف امور میں باہمی اختلافات کا پایا جانا ایک بدیہی امر ہے. لیکن ان اختلافات کی بنا پر باہم دست گریباں ہونا اور قطع رحمی کر لینا عقل سے ماورا ہے.
بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ کسی شخص کی جانب سے کوئی زیادتی ہو جاتی ہے، جو دوسرے کے لیے رنج وغم کا سبب بن جاتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ اس سے تعلقات منقطع کر لیتا ہے. حالانکہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ "کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زائد جدا رہے اور ملاقات کے وقت ایک دوسرے سے منھ پھیر لے اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں ابتدا کرے." (بخاری)
اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو آپس کے تعلقات درست رکھنے چاہئیں، تاکہ دشمنان اسلام کو ان کے اندر انتشار پیدا کرنے یا باہمی عداوت کے بیج بونے کا موقع فراہم نہ ہو سکے، کیونکہ کسی دو افراد کے آپس میں قطع تعلق کر لینے سے نہ صرف دین پر اثر پڑتا ہے بلکہ ایمان بھی کمزور پڑنے لگتا ہے، جس کے نتیجے میں عبادات کی ادائیگی میں بھی خیر نہیں رہ پاتی ہے.
انسان کے جذبات کو ملحوظ رکھتے ہوئے تین دن کا وقفہ اسی لیے دیا گیا ہے تاکہ اس مدت میں انسان کے غصے کے جذبات کم ہو جائیں اور تعلقات کی بحالی میں جو جھجھک حائل ہو رہی ہے، وہ ختم ہو جائے.
لہٰذا اگر کوئی شخص اپنے ظلم وزیادتی پر پشیماں ہے اور اپنے ساتھی سے معافی کا طلب گار ہے تو دوسرے کا بھی یہ اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ پورے اخلاص کے ساتھ آپسی رنجشوں کو ختم کرے اور پرانی روش پر لوٹ آئے، کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ "جس نے اپنے مسلم بھائی سے براءت پیش کی، لیکن اس نے اس کی براءت کو ٹھکرا دیا تو وہ حوض کوثر کے قریب بھی نہیں لایا جائے گا." (عبرانی)

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
چار دن کی زندگی ہے کاٹ لو ہنس بول کے
تعليقات
إرسال تعليق
Please do not enter any spam links in the comment box.