حیاتِ متنبی اور اُس کی شاعری

متنبی کی زندگی کے مختصر حالات:
ابو طیب احمد بن حسین متنبی سنہ 303 ہجری میں کوفہ کے ایک مُتَوِسِّطْ اور نادار گھرانے میں پیدا ہوا. اُس کی نشو ونما شام میں ہوئی. اُس کے حسب ونسب کے بارے میں بڑا اختلاف ہے. لیکن اصل اور درست بات یہ ہے کہ وہ عَلْوِی خاندان کا ایک فرد تھا. والدہ کے انتقال کے بعد اُس کی نانی نے بڑے لاڈ پیار سے اُس کی پرورش کی. یہی وجہ ہے کہ متنبی نے اپنے دیوان میں جا بجا اپنی نانی اور اُس کے خاندان پر فخر کیا ہے اور نانی کی وفات پر ایک دلسوز مرثیہ لکھا ہے. نانی کے قبیلے کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے:

وَلَوْ لَمْ تَكُوْنِيْ بِنْتَ أَكْرَمِ وَالِدٍ
لَكَانَ أَبَاكِ الضَّخْمَ كَوْنُكِ لِيْ أُمَّا

متنبی اور دعویٰ نبوت:
متنبی کے دعویٰ نبوت کے بارے میں مؤرخین ومصنفین کی آراء مختلف ہیں. بعض کے یہاں اُس کے دعویٰ نبوت سے متعلق ثبوت ملتا ہے اور بعض کے یہاں انکار. خود متنبی کے دیوان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اُس نے نبوت کا دعوٰی نہیں کیا تھا، البتہ اُس کے دل میں اِس قسم کا خیال ضرور پیدا ہوا تھا. اِس سلسلے میں اُس کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:

وَكُنْ فَارِقاً بَيْنَ دَعْوٰى أَرَدْتُ
وَدَعْوٰى فَعَلْتُ بِشَأْوٍ بَعِيْدِ

ایسی صورت میں یہ اعتراض پیدا ہوگا کہ پھر وہ اِس لقب سے مشہور کیوں ہوا؟ تو حقیقت یہ ہے کہ متنبی کو متنبی کے لقب سے مشہور کرنے میں اُس کے دشمنوں کا زیادہ ہاتھ ہے. کیونکہ متنبی نے چند اشعار ایسے کہے تھے جن میں اُس نے اپنی سادگی کو حضرت صالح اور حضرت عیسی علیہما السلام کے مشابہ قرار دیا تھا. چنانچہ اُن لوگوں نے موقع کو غنیمت سمجھا اور طنزاً اُسے متنبی کہہ کر پکارنے لگے. وہ کہتا ہے:

أَنَا فِيْ أُمَّةٍ تَدَارَكَهَا اللّٰهُ
غَرِيْبٌ كَصَالِحٍ فِيْ ثَمُوْدِ
مَا مُقَامِيْ بِأَرْضِ نَخْلَةَ إِلَّا 
كَمُقَامِ الْمَسِيْحِ بَيْنَ الْيَهُوْدِ

متنبی کے کارنامے:
متنبی کے یہاں صرف ایک صنفِ سخن قصیدہ ہے. اُس کی پوری زندگی درباروں سے وابستگی میں گزری اور سوائے مدحیہ قصائد کے اور دوسری صنفِ سخن میں بہت کم طبع آزمائی کی ہے. عربی ادب کی تاریخ میں جب بھی قصیدہ نگاروں کی فہرست مرتب کی جائے گی تو متنبی کا نام سرِفہرست ہوگا. سیف الدولہ کے دربار میں پہنچ کر متنبی نے اپنے کلام کو اوجِ کمال پر پہنچا دیا اور اُس کے علاوہ سب سے بے نیاز ہو گیا. متنبی کا کل کارنامہ حیات اُس کے وہ اشعار ہیں جو دیوانِ متنبی کے نام سے مشہور ہیں. اُس کے دیوان کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:

إِذَا أَنْتَ أَكْرَمْتَ الْكَرِيْمَ مَلَكْتَهٗ
وَإِنْ أَنْتَ أَكْرَمْتَ اللَّئِيْمَ تَمَرَّدَا

ایک دوسری جگہ وہ کہتا ہے:

وَمَا الدَّهْرُ إِلَّا مِنْ رُوَاةِ قَصَائِدِيْ
إِذَا قُلْتُ شِعْراً أَصْبَحَ الدَّهْرُ مُنْشِدَا 

متنبی کا اسلوبِ بیان:
متنبی نے بعض مقام پر اپنی شاعری میں حسن وعشق کا مُرَقَّع پیش کیا ہے اور بعض مقام پر مُضحِکہ خیز باتیں کی ہیں. اپنے وقت کے دیگر شعراء کی طرح متنبی نے بھی سلاطینِ وقت کی اندھا دھند تعریف کی اور مبالغہ آمیز باتیں کیں اور اِس کو اُس نے اپنی شاعری کا جُزءِ لا یَنْفَکْ قرار دیا. البتہ جہاں تک اُس کے فخر ومُبہاہات کی شاعری کا تعلق ہے وہ اپنی فطرت کے خلوص، مضمون کی وضاحت، عبارت کے ٹھہراؤ، دھیمے لب ولہجے اور اسلوبِ بیان کی سلاست روی میں اپنی مثال آپ ہے.

متنبی کی شاعری کے خصائص وامتیازات:
1- اُس کی شاعری کا ایک اہم امتیاز نذرانہ عقیدت ہے جو اُس نے کسی بادشاہ یا امیر کی خدمت میں پیش کیا ہے.
2- دوسری بات یہ ہے کہ اُس نے جو کچھ کہا وہ بہت زیادہ متنوع الالوان اور مختلف الانواع تھا.
3- تیسری خاص بات یہ ہے کہ اُس نے جہاد پر جو اشعار کہے ہیں وہ اتنے پرجوش، ولولہ انگیز، بلند پایہ اور بڑی مقدار میں ہیں جو بجائے خود اُس کی شاعری کا مستقل باب بن گئے ہیں.

متنبی کے شعری محاسن:
1- حسن مطلع. 
2- حسن مقطع.
3- گریز. متنبی اِس فن میں اپنا ثانی نہیں رکھتا.
4- تشبیب نگاری. متنبی کو تشبیب نگاری میں یدِ طُولیٰ حاصل تھا. وہ بدوی نازنین عورتوں کی تصویر کشی اور اُن کے سراپا کو بیان کرنے میں بڑی مہارت رکھتا تھا. شاید اِسی وجہ سے متنبی کو نسیب وتشبیب کا امام مانا جاتا ہے. اُس کے دیوان کا یہ شعر ملاحظہ ہو:

حُسْنُ الحِضَارَةِ مَجْلُوْبٌ بِتَطْرِيَةٍ
وَفِي الْبِدَاوَةِ حُسْنٌ غَيْرُ مَجْلُوْبِ

5- جِدَّتِ ادا. ایک معنی کو مختلف پیرایہ میں بیان کرنے میں متنبی کو ملکہ حاصل تھا. دراصل اُس کا یہی کمال اُس کی شاعری کی جان ہے.
6- حسنِ ادا اور حسنِ تعرف.
7- تشبیہات واستعارات کی جدت. متنبی کے خصائصِ شاعری میں تشبیہات واستعارات کی جدت کو بڑی اہمیت حاصل ہے. اِس خوبی سے متعلق متنبی کا دیوان بھرا پڑا ہے. ایک جگہ وہ کہتا ہے:

كَأَنَّ سُهَادَ اللَّيْلِ يَعْشَقُ مُقْلَتِيْ
فَبَيْنَهُمَا فِيْ كُلِّ هَجْرٍ لَنَا وَصْلُ

8- سِیاقة الاَعداد. متنبی کے یہاں اِس صفت میں بھی اشعار کا کچھ حصہ مل جاتا ہے.
9- حسنِ تقسیم.

وفات:
متنبی نے اکیاون سال کی عمر پائی اور سنہ 354 ہجری کے اواخرِ رمضان میں فاتک بن ابو جہل اسدی نے اِس عظیم شاعر کو دریائے دجلہ کے کنارے قتل کر دیا اور اُس کی لاش ایک ریتیلے میدان میں بے گُور وکفن پڑی رہ گئی.

خلاصہ:
خلاصہ کلام یہ ہے کہ متنبی عرب کے عظیم اور ممتاز شعراء میں سے ایک تھا. وُسعتِ نظر، رِفعتِ تخیل، نُدرتِ تشبیہ اور اظہارِ خیال کی جدت کے اعتبار سے اُس کا کلام آج بھی لاثانی ہے. شاید یہی وجہ ہے کہ دورِ جدید میں مشہور عربی نَقَّاد ڈاکٹر طہ حسین اُس کے پرستاروں میں ہیں اور دورِ قدیم میں ابو العلاء معری جیسے ناقدین اُس کے مَدَّاحوں میں ہیں.


مصادر ومراجع:
تاریخ ادب عربی اَزْ استاد احمد حسن زیات.
شرح دیوان متنبی اَزْ مفتی یار محمد خان قادری.
دیوان متنبی اَزْ محمد امین کھوکھر.
اردو شرح دیوان متنبی اَزْ مولانا اسیر ادروی.
دیوان ابی الطیب المتنبی.

تعليقات

المشاركات الشائعة من هذه المدونة

مساهمة توفيق الحكيم في تطوير المسرحية

أبيات بشار بن برد في الشورى والجد والمعاشرة